Skip to main content
ایک بادشاہ کے دربار میں
ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا،
قابلیت پوچھی گئ، کہا ،سیاسی ہوں ۔۔
(عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں)
بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی،
اسے خاص " گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج " بنا لیا 
جو حال ہی میں فوت ھو چکا تھا.
چند دن بعد ،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا،
اس نے کہا "نسلی نہیں ھے"
بادشاہ کو تعجب ھوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا،،،،
اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ھے.
مسئول کو بلایا گیا،
تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ھے؟؟؟
اس نے کہا، 
جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے 
جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ھے.
بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا،
مسئول کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا.
اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا،
چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی،
اس نے کہا.
طور و اطوار تو ملکہ جیسے ھیں لیکن "شہزادی نہیں ھے،" 
بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ، حواس بحال کئے، ساس کو بلا بیجھا،
معاملہ اس کے گوش گذار کیا. اس نے کہا ، حقیقت یہ ھے تمہارے باپ نے، میرے خاوند سے ھماری بیٹی کی پیدائش پر ھی رشتہ مانگ لیا تھا، لیکن ھماری بیٹی 6 ماہ ہی میں فوت ھو گئ تھی، 
چنانچہ ھم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا.
بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا، "تم کو کیسے علم ھوا،"
اس نے کہا، اس کا "خادموں کے ساتھ سلوک" جاہلوں سے بدتر ھے،
بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ھوا، "بہت سا اناج، بھیڑ بکریاں" بطور انعام دیں.
ساتھ ہی اسے اپنے دربار میں متعین کر دیا.
کچھ وقت گزرا،
"مصاحب کو بلایا،"
"اپنے بارے دریافت کیا،" مصاحب نے کہا، جان کی امان، 
بادشاہ نے وعدہ کیا، اس نے کہا:
"نہ تو تم بادشاہ زادے ھو نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ھے"
بادشاہ کو تاؤ آیا، مگر جان کی امان دے چکا تھا،
سیدھا والدہ کے محل پہنچا، "والدہ نے کہا یہ سچ ھے"
تم ایک چرواہے کے بیٹے ھو،ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا ۔
بادشاہ نے مصاحب کو بلایا پوچھا، بتا، 
"تجھے کیسے علم ھوا" ؟؟؟
اس نے کہا،
"بادشاہ" جب کسی کو "انعام و اکرام" دیا کرتے ھیں تو "ہیرے موتی، جواہرات" کی شکل میں دیتے ھیں،،،، 
لیکن آپ "بھیڑ ، بکریاں، کھانے پینے کی چیزیں" عنایت کرتے ھیں
"یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں "
کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ھو سکتا ھے.
عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔۔۔

*عادات، اخلاق اور طرز عمل ۔۔۔ خون اور نسل دونوں کی پہچان کرا دیتے ھیں.*

Comments

Popular posts from this blog

ﺍﯾﮏ ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩﻭﮞ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻘﺪﻣﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺍﺋﮯ ﻟﮑﮭﻨﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ . ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﮩﻤﺎﻥ ﺁﺋﮯ . ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﻣﺪﺍﺭﺍﺕ ﮐﯽ . ﺍﭘﻨﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﮐﻮ ﺩﻭﺩﮪ ﻟﯿﻨﮯ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﮭﯿﺮ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺟﺎﺋﮯ . ﻣﻼﺯﻡ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﺎ ﺑﺮﺗﻦ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﮯ ﺁﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﻞ ﮔﺬﺭﯼ ﺟﺲ ﮐﮯ ﭘﻨﺠﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻧﭗ ﺗﮭﺎ . ﺳﺎﻧﭗ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﮯ ﺯﮨﺮ ﮐﮯ ﻗﻄﺮﮮ ﻧﮑﻠﮯﺟﻮ ﺩﻭﺩﮪ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﮔﺮﮮ . ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮭﯿﺮ ﮐﮭﺎﺋﯽ ﺗﻮ ﺳﺐ ﮨﻼﮎ ﮨﻮﮔﺌﮯ . ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻗﺼﻮﺭﻭﺍﺭ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ . ﭘﮩﻠﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻏﻠﻄﯽ ﻣﻼﺯﻡ ﮐﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﺮﺗﻦ ﮈﮬﺎﻧﭙﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ . ﻟﮩﺬﺍ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﺘﻞ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺫﻣﮧ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺳﺰﺍ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ... ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺩﺭﺳﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﻼﺯﻡ ﮐﻮ ﺑﺮﺗﻦ ﮈﮬﺎﻧﭙﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﺎ . ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﻗﺼﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﺳﺰﺍ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ . ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﺍﺻﻞ ﺟﺮﻡ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﮭﯿﺮ ﭼﮑﮭﻨﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﯽ . ﭘﮭﺮ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﻧﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺗﮭﯽ . ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺟﻮﺍﺯ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﺘﺮﺩ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ . ﺗﯿﺴﺮﮮ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﺍﺗﻔﺎﻗﯽ ﻭﺍﻗﻌﮧ ﮨﮯ . ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﻧﺎ ﻟﮑﮭﺎ ﺗﮭﺎ . ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺳﺰﺍ ﻭﺍﺭ ﻗﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ . ﻗﺎﺿﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﺴﯽ ﺟﺞ ﮐﯽ ﺍﭘﺮﻭ...
ﮈﯾﮍﮪ ﮐﺮﻭﮌ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﮈﯾﮍﮪ ﺍﺭﺏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻮﺗﮯ ﮐﯽ ﻧﻮﮎ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺎ ہوا ہے کیونکہ مسلمانوں نے ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﭼﮭﯿﮍ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ، https://m.facebook.com/paighammedia ﻏﺰﻭﮦ ﺍﺣﺪ ﺳﻦ 3 ﮨﺠﺮﯼ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﺲ ﻣﻨﻈﺮ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﻗﺒﻞ ﯾﻌﻨﯽ 2 ﮨﺠﺮﯼ ﮐﻮ ﻏﺰﻭﮦ ﺑﺪﺭ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﺭﻭﻧﻤﺎ ﮨﻮﺍ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺳﺮﻭﺳﺎﻣﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ 313 ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺸﮑﺮ ﻧﮯ ﻗﺮﯾﺶ ﻣﮑﮧ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﮯ 3 ﮔﻨﺎ ﺑﮍﮮ ﻟﺸﮑﺮ ﮐﻮ ﭘﭽﮭﺎﮌ ﮈﺍﻻ۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺻﺮﻑ 70 ﺍﻭﻧﭧ، 2 ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﺪ ﺍﯾﮏ ﺗﻠﻮﺍﺭﯾﮟ ﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺷﺎﻣﻞ ﺣﺎﻝ ﺗﮭﯽ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻗﺮﯾﺶ ﮐﮯ ﺁﮨﻨﯽ ﺯﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔ ﻗﺮﯾﺶ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮔﺮﻭﮨﻮﮞ ﮐﮯ 70 ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﺍﺱ ﻣﻌﺮﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮍﯼ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﺑﭽﺎ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮔﮯ۔ ﻟﺸﮑﺮ ﮐﺎ ﺳﭙﮧ ﺳﺎﻻﺭ ﺍﺑﻮﺟﮩﻞ ﺍﺳﯽ ﻏﺰﻭﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺪﻟﮧ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﺟﻨﮓ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﯽ۔ 3300 ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﺎ ﻟﺸﮑﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ، ﺍﺳﮯ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﻭ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺳﮯ ﻟﯿﺲ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﮍﮬﺎﺋﯽ ﮐﺮﺩﯼ۔ ﻧﺒﯽ ﷺ ﮐﻮ ﺍﻃﻼﻉ ﻣﻠﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﮐﻮ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﻼﯾﺎ۔ ﺁﭖ ﷺ ﮐﯽ ﺭ...