Skip to main content
کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل
١٣ جمادی الاخری ١٤٣٩ ھجری
بمطابق 2 مارچ 2018ء
رہبرِ ملّت حضرت مفتی نذیر احمد قاسمی حفظہ اللہ و رعاہ
شیخ الحدیث و صدر مفتی دارالعلوم رحیمیہ بانڈی پورہ کشمیر
-----------------------------------------------------------------------

 سوال:۔1
ہمارے علاقے میں مختلف جگہوں پر مسلمان کے مرنے کے بعد اُس کی قبر پر ’’اذان‘‘ دی جاتی ہے ۔ کیا اس کی کوئی سند ہے؟ کیا یہ چیز شرعاً مسلمانوں کیلئے جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو وضاحت کریں... اور اگر ناجائز ہے تو کیا قرآن و حدیث کے لحاظ سے ایسا کرنے والا گنہگار ہے؟ براہ کرم مفصل جواب دیجئے؟
ایم ۔ ایس ۔ نائیک، سابقہ زیڈ ای او کولگام

(تدفین کے بعد اذان پڑھنے کا عمل بدعت)
جواب:۔1
 عبادت کے قبیل سے تمام وہ اعمال جو اجر و ثواب کا سبب بنتے ہیں، وہ تمام اعمال صرف اللہ اور اُس کے رسول ﷺ  نے مقرر فرمائے ہیں۔ اُن اعمال میں حذف و اضافہ کا کسی کو کوئی حق نہیں ہے۔ اگر کسی نے اپنی طرف سے کوئی ایسا عمل مقرر کیا جو صرف نبی علیہ السلام کے مقرر کرنے کا تھا تو وہ عمل بدعت قرار پائے گا۔ مثلاً کسی شخص نے نماز، اذان، تلاوت یا کسی تسبیح و تہلیل کے کلمات میں اضافہ کیا، تو یہ اضافہ شرعی طور پر مسترد قرار پاے گا۔
مردے کو قبر میں دفن کرنے کے بعد اذان پڑھنا ایسا کام ہے، جو نہ تو حضرت نبی کریم علیہ السلام نے کیا نہ کرنے کا کسی کو حکم دیا۔ نہ حضرات صحابہ کرام ؓ نے کبھی کسی مردے کے دفن کے بعد یہ اذان پڑھی نہ ہی تابعین کرام ، سلف صالحین میں کسی نے یہ عمل کیا اور نہ ہی چاروں مسلکوں میں سے کسی امام یا مجتہد نے اس کیلئے کوئی حکم بیان کیا کہ اس پر یہ فائدہ ہوگا ۔ آج بھی پچاس سے زیادہ ملکوں اور اس سے زیادہ تعداد میں غیر مسلم ممالک میں آباد مسلمانوں میں کہیں بھی یہ عمل نہیں پایا جاتا ۔ حرمین شریفین میں بھی  اذان کا یہ عمل نہیں ہے۔ خود یہاں کشمیر میں جب سے اسلام آیا ہے اُس وقت سے آج  تک علماء، فقہاء ، محدثین، اولیاء کرام غرض ہر اہم طبقے کے مسلمان یہاں ہمیشہ سے رہے، مگر کہیں کسی نے یہ عمل نہیں کیا۔
اس لئے یہ طے ہے کہ یہ عمل سراسر بدعت ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مردے کو شیطان کے اثر سے بچانے کیلئے قبر پر اذان پڑھی جائے یہ دراصل ایک غلط عمل کو جواز بخشنے کی غلط سعی ہے۔ مرنے کے بعد شیطان کا اثر قبر میں کہاں ہوتا ہے، یہ مفروضہ ہی غلط ہے کہ قبر میں انسان کو شیطان بہکاتا ہے.
لہٰذا اذان سے شیطان کو بھگایا جائے۔ پھر اگر شارع علیہ السلام نے یہ عمل تجویز نہیں کیا تو کسی دوسرے کو کیا حق ہے وہ خود ساختہ خیالوں کی بنا پر اس طرح بدعت کو جواز و رواج دے ۔
لطف یہ ہے علامہ شامی ؒ نے اس عمل کے باطل اور غیر معتبر ہونے کو صراحت سے اپنی کتاب ردالمختار میں لکھا ہے۔
.......................................................................

سوال:۔2
کیا جنازے کے وضو سے دوسری نماز پڑھنا جائز ہے۔ ہمارے علاقے کے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جنازے کیلئے جو وضو کیا جائے اس سے دوسری کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے؟

سوال:۔3
 ہمارے علاقے میں بہت سارے لوگ مردے کے کفن کی سلائی کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ پائجامہ بھی بناتے ہیں اور کمر بند بھی لگاتے ہیں؟

سوال:۔4
 کچھ لوگوں کا یہ خیال  ہے کہ جو شخص مردے کو غسل دے وہ شخص امامت نہیں کرسکتا.
کیا یہ درست ہے یا نہیں؟
عبدالحمید ڈار شوپیان

(جنازے کے وضو سے نماز درست)
جواب:۔2
 جنازہ کیلئے جو وضو کیا جائے اُس وضو سے ہر نماز ادا کرنا درست ہے۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ اُس وضو سے دوسری کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے جو جنازہ کیلئے کیا جائے۔


(کفن کی سلائی کرنا خلافِ سنت)
جواب:۔3
 کفن کی سلائی کرنا خلاف سنت ہے ۔ حضرت نبی کریم ﷺ  کا مبارک کفن بغیر سلائی استعمال کئے جانے کا ثبوت حدیث میں موجود ہے۔ اسی طرح بہت سارے صحابہ کے کفن کا تذکرہ احادیث کی کتابوں میں آتا ہے اور کوئی کفن کبھی بھی سلائی کے بعد استعمال نہیں ہوا ۔ فقہ و فتاویٰ کی کتابوں میں بھی کفن کے سلائی کا کوئی حکم نہیں ہے یا پائجامہ بنانا اور اس میں کمر بند ڈالنا بھی کوئی شرعی حکم نہیں ہے، یہ صرف چند محدود علاقوں کا رواج ہے نہ کہ کسی شرعی حکم پر عمل۔
اسی لئے پوری دنیا کے مسلمان کہیں بھی کفن کی سلائی نہیں کرتے، اس لئے اس خود ساختہ رسم کو ختم کر دیا جائے۔

(غسال امامت کا اہل)
جواب:۔4
مردے کو غسل دینا اجر و ثواب کا عمل ہے ۔ جو شخص یہ عمل کرے اُس نے ایک نیکی کا عمل کیا ۔ اب اس کے متعلق یہ کہنا کہ یہ امامت نہیں کرسکتا، یہ سراسر جہالت ہے۔ کسی شرعی کتاب میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ مردے کو غسل دینے والا غسال امامت کا اہل نہیں۔ امامت کے اوصاف اور اماموں کے شرائط شرعی کتابوں میں صراحت سے موجود ہے اور جن افراد کی امامت درست نہیں اُن کی تفصیل بھی شرعی کتابوں میں موجود ہے، وہاں یہ تو موجود ہے کہ گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والا امامت کا مستحق نہیں، مگر یہ کہیں نہیں لکھا کہ غسال امامت نہیں کرسکتا۔
........................................................................

سوال:5
 کشمیر میں شگوفے پھوٹنے کے موسم میں ہی میوہ باغات کی خرید و فروخت زوروں پر شروع ہوجاتی ہے اور لوگ اسکی طرف توجہ بھی نہیں دیتے کہ یہ حلال ہے یا حرام. کیونکہ بہت پہلے سے یہ رواج چلا آرہا ہے حتیٰ کہ اکثر لوگ ایسے بھی ہیں جن کو یہ بات کہ پھول کھلنے کے موسم میں باغات کا خریدنا اور فروخت کرنا جائزہ نہیں ہے بالکل نئی اور عجیب سی معلوم پڑتی ہے. بعض لوگ یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ اگر ہم میوہ ظاہر ہونے کے بعد باغ کا سودا کریں گے تو ہمیں بعض مرتبہ بجائے نفع کے نقصان اٹھانا پڑتا ہے کہ دوائیوں کے چھڑکاؤ پر زرِ کثیر خرچ ہوتا ہے اور باغ بیچنے کے بعد دوائیوں کے پیسے بھی وصول نہیں ہوتے... لہٰذا مہربانی اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ علمائے کرام نے جدید اجتہاد کے دوران ایسا کوئی مسئلہ دریافت کیا ہے جس کی رو سے یہ خرید و فروخت جائز تصویر کی جاتی ہو
 اگر ایسا نہیں ہے تو ایسی آسان سی صورت کے فتوے سے نواز دیں جس سے ہماری آخرت بھی برباد نہ ہو اور دنیوی نقصان کا بھی سامنا نہ کرنا پڑا...

سوال نمبر 6
 ایک ماں اپنے بچے کو عمر کی کس حد تک دودھ پلا سکتی ہے۔ عمر کی کم سے کم اور زیادہ سے زیادہ حد شریعت نے کیا مقرر کی ہے اور اگر عمر کی بالائی حد کو تجاوز کرکے ماں بچے کو دودھ پلائے یا بچہ دودھ پینے کی ضد کرے تو اس کیلئے کیا حکم ہے۔
ابو اویس


 (شگوفے پھوٹتے ہی میوہ کی تجارت جائز نہیں)
جواب:5
 باغ کا میوہ پیدا ہونے سے پہلے یا پکنے سے پہلے فروخت کیا جائے تو شرعاً یہ جائز نہیں۔ حدیث صحیح جو بخاری و مسلم وغیرہ اکثر کتابوں میں ہے کہ حضرت نبی کریم ؐ نے تیار ہونے سے پہلے پھل فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جب پھل پکنے اور تیار ہونے سے پہلے فروخت کرنے کی ممانعت ہے تو صرف پھول آنے پر یا اُس سے بھی پہلے باغ کا میوہ فروخت کرنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے۔ نیز یہ عقل اور سجھ کے بھی سراسر خلاف ہے کہ جو چیز ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی ہے اور جب وہ پیدا ہوگی تو اُس کی مقدار کا پہلے سے صحیح اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔ ایسی صورت میں عقلی طور پر بھی یہ خرید و فروخت درست نہیں ہوسکتی۔ اسی لئے باغ کے میوؤں سے وابستہ لوگ سخت اتار چڑھاؤ کا شکار رہتے ہیں۔ ایک سال اُن کی مالی حالت بہت اچھی بلکہ قابل رشک اور دوسرے سال وہ اپنا اصل خرچہ بھی نہیں بچا پاتے ہیں۔ اس لئے باغ قبل از وقت فروخت کرنا شرعاً ہرگز درست نہیں ہاں جب میوہ پختہ ہوجائے جس کو کشمیر کے باغات کا کام کرنے والے یوں تعبیر کرتے ہیں کہ میوہ جم گیا۔ یا کہتے ہیں میوہ ٹک گیا۔ بس اس کے بعد میوہ فروخت کرنا درست ہے۔ کیونکہ حقیقت یہ ہے باغ کی فروختگی کے وقت ظاہر ہے کہ نہ تو باغ کی زمین فروخت کی جاتی ہے اور نہ باغ کے درخت، بلکہ مقصد یہ ہونا ہے کہ آئندہ جو میوہ پیدا ہوگا ہم وہ فروخت کررہے ہیں تو ظاہر ہے معدوم شئے کی خرید و فروخت شرعاً بھی درست نہیں اور عقلاً بھی صحیح نہیں۔
اب شرعاً اس کا ایک حل ہے اور وہ یہ کہ باغ کا مالک میوہ فروخت کرنے کے بجائے باغ کی زمین کو کرایہ پر اُس شخص کو دے جو خریدار بن کر آیا ہے۔جب باغ کی زمین اجارہ (Lease) پر دی جائے تو اب یہ معاملہ میوہ کی خرید و فروخت کا نہ رہا۔ بلکہ زمین کو کرایہ پر دینے کا بناہے۔
اب باغ کا مالک موجر (کرایہ پر دینے والا) اور باغ لینے والا مستاجر (یعنی کرایہ دار) بن گیا اور کرایہ دار جو رقم ادا کرے گا وہ رقم میوہ کی قیمت نہیں ہوگی بلکہ باغ کی زمین کا کرایہ ہوگا۔ اب اس زمین سے گھاس، سبزیاں اور درختوں سے میوہ وغیرہ جو کچھ بھی پیدا ہوگا وہ اسی باغ لینے والے کا حق ہوگا۔ باغ لینے والا جو رقم ادا کرے گا وہ چونکہ کرایہ ہوگا۔ اس لئے آئندہ جتنے عرصہ کے لئے کرایہ کا یہ معاہدہ ہو وہ شرعاً درست ہوگا۔ چاہے کئی سال کیلئے کیوں نہ دیا جائے۔ پھر چاہے کرایہ سالانہ لیا جائے یا ماہانہ۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ایک شخص مثلاً ایک لاکھ روپے کا باغ فروخت کرنا چاہتا ہے اور اگر وہ باغ اس رقم کے عوض فروخت ہوگیا تو اس باغ کی گھاس اور باغ میں پیدا ہونے والی سبزیاں، دالیں وغیرہ باغ کا مالک لیتا ہے ۔ اور مثلاً یہ گھاس سبزیاں، دالیں بیس ہزار روپے کی مالیت کے ہوتے ہیں تو اب جب کرایہ کا معاملہ کیاجائے تو اس طرح کہ سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار کا کرایہ ہوگا اور باغ کا میوہ، گھاس، سبزیاں سب کچھ خریدار کا ہوگا۔
........................................................................

سوال:7-
بہت سارے نوجوانوں کی حالت یہ ہے کہ اُنہیں بہت بُرے بُرے خیالات آتے ہیں ۔ میرا حال بھی ایسا ہی ہے۔ یہ خیالات اللہ کی ذات کے بارے میں ، حضرت نبی علیہ السلام کے متعلق ، ازواج مطہراتؓ کے متعلق ، قرآن کے متعلق ہوتے ہیں۔ اُن خیالات کو زبان پر لانا بھی مشکل ہے ، اُن خیالات کو دفع کرنے کے جتنی بھی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی وہ دل میں ، دماغ میں مسلط ہوتے ہیں ۔ اب کیا یا جائے ؟
کامران شوکت


(بُرے خیالات: شیطان وہیں حملہ کرتاہے جہاں ایمان کی دولت ہو)
جواب:-7
بُرے خیالات آنا دراصل شیطان کا حملہ ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابیؒ نے یہی صورتحال عرض کرکے کہا کہ
 یا رسول اللہ ؐ! میرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ اگر میں اُن کو ظاہر کروں
تو آپؐ ہم کو کافر یا منافق قرار دیں گے ۔
اس پر حضرت ؐ نے ارشاد فرمایا کہ
کیا واقعتاً تمہارے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں ؟
عرض کیا گیا کہ ہاں ایسے خیالات آتے ہیں۔
تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ
یہ ایمان کی علامت ہے ۔
عرض کیا گیا کیسے ؟ تو ارشاد فرمایا چور وہاں ہی آتا ہے کہ جہاں مال ہوتا ہے ۔
 جب ایسے بُرے خیال آئیں تو بار بار استغفار اور لَا حَوْلَ و لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہ پڑھنے کا اہتمام کریں اور اپنے آپ کو مطمئن رکھیں کہ یہ آپ کا اپنا خیال ہے ہی نہیں ۔
 آپ کاخیال تو وہ ہے جو آپ کی پسند کے مطابق ہو ۔ یہ خیال آپ کو نہ پسند ہے نہ قبول ہے تو اس کا وبال بھی آپ کے سر پر نہیں ہے

Comments

Popular posts from this blog

ﮈﯾﮍﮪ ﮐﺮﻭﮌ ﯾﮩﻮﺩﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﮈﯾﮍﮪ ﺍﺭﺏ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺟﻮﺗﮯ ﮐﯽ ﻧﻮﮎ ﭘﺮ ﺭﮐﮭﺎ ہوا ہے کیونکہ مسلمانوں نے ﺍﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺭﺳﻮﻝ ﷺ ﺳﮯ ﺟﻨﮓ ﭼﮭﯿﮍ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ، https://m.facebook.com/paighammedia ﻏﺰﻭﮦ ﺍﺣﺪ ﺳﻦ 3 ﮨﺠﺮﯼ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﺁﯾﺎ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﭘﺲ ﻣﻨﻈﺮ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﻗﺒﻞ ﯾﻌﻨﯽ 2 ﮨﺠﺮﯼ ﮐﻮ ﻏﺰﻭﮦ ﺑﺪﺭ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﻌﺠﺰﮦ ﺭﻭﻧﻤﺎ ﮨﻮﺍ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﮯ ﺳﺮﻭﺳﺎﻣﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻣﯿﮟ 313 ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺸﮑﺮ ﻧﮯ ﻗﺮﯾﺶ ﻣﮑﮧ ﮐﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﮯ 3 ﮔﻨﺎ ﺑﮍﮮ ﻟﺸﮑﺮ ﮐﻮ ﭘﭽﮭﺎﮌ ﮈﺍﻻ۔ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺻﺮﻑ 70 ﺍﻭﻧﭧ، 2 ﮔﮭﻮﮌﮮ ﺍﻭﺭ ﭼﻨﺪ ﺍﯾﮏ ﺗﻠﻮﺍﺭﯾﮟ ﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﺷﺎﻣﻞ ﺣﺎﻝ ﺗﮭﯽ، ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻗﺮﯾﺶ ﮐﮯ ﺁﮨﻨﯽ ﺯﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺒﻮﺱ ﺩﺷﻤﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﻡ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔ ﻗﺮﯾﺶ ﮐﮯ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﮔﺮﻭﮨﻮﮞ ﮐﮯ 70 ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺳﺮﺑﺮﺍﮦ ﺍﺱ ﻣﻌﺮﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮍﯼ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﺟﺎﻥ ﺑﭽﺎ ﮐﺮ ﺑﮭﺎﮔﮯ۔ ﻟﺸﮑﺮ ﮐﺎ ﺳﭙﮧ ﺳﺎﻻﺭ ﺍﺑﻮﺟﮩﻞ ﺍﺳﯽ ﻏﺰﻭﮦ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﺭﺍ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭘﮭﺮ ﺍﺑﻮﺳﻔﯿﺎﻥ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﺪﻟﮧ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺭﮮ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﺟﻨﮓ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﮐﯽ۔ 3300 ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﺎ ﻟﺸﮑﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ، ﺍﺳﮯ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﮐﮯ ﺍﺳﻠﺤﮧ ﻭ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺳﮯ ﻟﯿﺲ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺪﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﮍﮬﺎﺋﯽ ﮐﺮﺩﯼ۔ ﻧﺒﯽ ﷺ ﮐﻮ ﺍﻃﻼﻉ ﻣﻠﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﷺ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺣﺒﺎﺏ ﮐﻮ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﻼﯾﺎ۔ ﺁﭖ ﷺ ﮐﯽ ﺭ

Yasir Ahmad

Kirayadar Dekhiye Mere Kamray Ki Chhat Kitni Tapak Rahi Hai Aur Barish Ka Pani Tezi Se Kamray Me Aa Raha Hai.. Malik Makan: Me Ny To Aap Ko Pehly Hi Kaha Tha K Her Kamray Me Pani Ki Sahulat Mojood Hai.. :-D
ایک بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی،نوکری کی طلب لئےحاضر ھوا، قابلیت پوچھی گئ، کہا ،سیاسی ہوں ۔۔ (عربی میں سیاسی،افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ھیں) بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی، اسے خاص " گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج " بنا لیا  جو حال ہی میں فوت ھو چکا تھا. چند دن بعد ،بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا، اس نے کہا "نسلی نہیں ھے" بادشاہ کو تعجب ھوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا،،،، اس نے بتایا، گھوڑا نسلی ھے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئ تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ھے. مسئول کو بلایا گیا، تم کو کیسے پتا چلا، اصیل نہیں ھے؟؟؟ اس نے کہا،  جب یہ گھاس کھاتا ھےتو گائیوں کی طرح سر نیچے کر کے  جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لےکر سر اٹھا لیتا ھے. بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ھوا، مسئول کے گھر اناج،گھی،بھنے دنبے،اور پرندوں کا اعلی گوشت بطور انعام بھجوایا. اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کر دیا، چند دنوں بعد، بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے ما